دشمنی لرزاں ہے یارو دوستی کے سامنے
تیرگی تھرا رہی ہے روشنی کے سامنے
قافلے والوں سے یہ منظر نہ دیکھا جائے گا
راہ بر ہیں سر بسجدہ گمرہی کے سامنے
روح تو تاریکیوں میں غرق ہو کر رہ گئی
جسم البتہ ہے اپنا روشنی کے سامنے
اک نظر بس آپ میرے سامنے آ جائیے
عمر بھر بیٹھا رہوں گا آپ ہی کے سامنے
تیرے دامن میں مہکتے ہیں ہزاروں گلستاں
اور تیرا ہاتھ پھیلا ہے کلی کے سامنے
زندگی میں بارہا ایسے بھی لمحے آئے ہیں
گفتگو شرما گئی ہے خامشی کے سامنے
جو اندھیرے میں مظالم توڑتے رہتے ہیں رازؔ
آ نہیں سکتے وہ ظالم روشنی کے سامنے
غزل
دشمنی لرزاں ہے یارو دوستی کے سامنے
شفیع اللہ راز