EN हिंदी
دشمن کے طنز کو بھی سلیقے سے ٹال دے | شیح شیری
dushman ke tanz ko bhi saliqe se Tal de

غزل

دشمن کے طنز کو بھی سلیقے سے ٹال دے

معصوم شرقی

;

دشمن کے طنز کو بھی سلیقے سے ٹال دے
اپنے مذاق طبع کی ایسی مثال دے

بخشے بہار کو جو نہ شائستگی کا رنگ
ایسی ہر ایک شے کو چمن سے نکال دے

پچھلی رتوں کے داغ تو سب ماند پڑ گئے
اب کے بہار زخم کوئی لا زوال دے

میں بھی تو راہرو ہوں ترا رہ گزار شوق
تھوڑی سی دھول میری طرف بھی اچھال دے

معصومؔ صاف گوئی بڑی چیز ہے مگر
ایسا نہ ہو کہیں یہ مصیبت میں ڈال دے