EN हिंदी
درست ہے کہ مرا حال اب زبوں بھی نہیں | شیح شیری
durust hai ki mera haal ab zubun bhi nahin

غزل

درست ہے کہ مرا حال اب زبوں بھی نہیں

صفدر میر

;

درست ہے کہ مرا حال اب زبوں بھی نہیں
مقام سجدہ کہ یہ جام سرنگوں بھی نہیں

نہیں کہ شورش بزم طرب فزوں بھی نہیں
دلیل شورش جاں اک چراغ خوں بھی نہیں

حدیث شوق ابھی مختصر ہے چپ رہیے
ابھی بہار کا کیا غم ابھی جنوں بھی نہیں

ابھی تو طاق حرم میں جلائیے شمعیں
ابھی حریف صنم جذب اندروں بھی نہیں

ابھی یہ گنبد سر پھوڑنے کی کیجے فکر
کہ سد راہ ابھی چرخ نیلگوں بھی نہیں

ابھی تو گرد رہ آستاں سے ساز کریں
فروغ دیدہ کوئی پیکر فسوں بھی نہیں

ہے اس قدر کہ نگہ بام و در پہ پھرتی ہے
مگر دلوں کو جو تڑپائے وہ سکوں بھی نہیں