دنیا وہ راستے کی رکاوٹ ہے دوستو
جس سے ہمیں شدید لگاوٹ ہے دوستو
چھت پر کھڑے ہیں پھر بھی نظر آسماں پہ ہے
پانی میں تشنگی کی ملاوٹ ہے دوستو
اک تو یہ راستے ہیں کہ جیسے ہوں دائرے
اس پر مسافتوں کی تھکاوٹ ہے دوستو
ہم سب کو کیا پڑی کہ تعلق بنائیں ہم
چہروں پہ پر فریب بناوٹ ہے دوستو
لمحوں کی انگلیوں پہ سبھی ناچنے لگے
یہ جشن زندگی کی بناوٹ ہے دوستو
غزل
دنیا وہ راستے کی رکاوٹ ہے دوستو
ذیشان ساجد