دنیا وہی ہے اور وہی سامان زندگی
لیکن بدلتے رہتے ہیں عنوان زندگی
کیا کام کر رہا ہے یہ مہمان زندگی
بھرتا ہے کیوں گناہ سے دامان زندگی
وحشت نصیب ہے سر و سامان زندگی
الفت میں تار تار ہے دامان زندگی
ہے دیکھنے کی چیز بھی کچھ دیکھتا ہے کیا
سیر جہاں ہے خواب پریشان زندگی
کافی ہے اپنے واسطے آرائش وجود
آرائشوں سے پاک ہے دامان زندگی
موجوں سے کھیلتا ہوا باہر نکل نہ جا
آخر یہ کس لئے غم طوفان زندگی
اک دن حیات و موت کی اس کھینچ تان میں
ہاتھوں سے چھوٹ جائے گا دامان زندگی
مرنا ہی جب جہاں میں ہے جینے کا ماحصل
ناحق اٹھائیں کس لئے احسان زندگی
سمجھے ہوئے تھے ہم جسے عیش و طرب کا گھر
زندان غم بنا ہے وہ ایوان زندگی
پیری چلے گی کیا مری پیری کے دور میں
آئے کہاں سے پہلی سی اب شان زندگی
ہے فصل گل کا زور بہاروں پہ ہے شباب
کیا پر فضا ہے آج گلستان زندگی
کس سے وفا کی دہر میں خوشترؔ امید ہے
عہد وفا سے دور ہے پیمان زندگی
غزل
دنیا وہی ہے اور وہی سامان زندگی
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی