EN हिंदी
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا | شیح شیری
duniya walon ne chahat ka mujhko sila anmol diya

غزل

دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا

شکیب جلالی

;

دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
پیروں میں زنجیریں ڈالیں ہاتھوں میں کشکول دیا

اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا

یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا

مجھ سا بے مایہ اپنوں کی اور تو خاطر کیا کرتا
جب بھی ستم کا پیکاں آیا میں نے سینہ کھول دیا

بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تو نے کس بنجر مٹی میں من کا امرت ڈول دیا

اشکوں کی اجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
الفت کی میزان میں میں نے جو تھا سب کچھ تول دیا