دنیا سے پرے جسم کے اس باب میں آئے
ہم خود سے جدا ہو کے ترے خواب میں آئے
کچھ ایسے بھی ہموار کی ہر سطح کو اپنی
موجوں کی طرح ہم ترے پایاب میں آئے
ان کو بھی ابد کے کسی ساحل پہ اتارو
وہ لمس جو اس رات کے سیلاب میں آئے
اک نقش تو ٹھہرا تھا روانی کے بدن پر
جب بن کے بھنور ہم ترے گرداب میں آئے
بکھراؤ کے شہپر پہ ہم اترے پہ زمیں پر
کچھ پھیل کے اس نقطۂ نایاب میں آئے
تھے غیب کے تیشے سے تراشے ہوئے ہم تب
انگڑائی کی صورت تری محراب میں آئے
غزل
دنیا سے پرے جسم کے اس باب میں آئے
ریاض لطیف