EN हिंदी
دنیا سے پرے جسم کے اس باب میں آئے | شیح شیری
duniya se pare jism ke is bab mein aae

غزل

دنیا سے پرے جسم کے اس باب میں آئے

ریاض لطیف

;

دنیا سے پرے جسم کے اس باب میں آئے
ہم خود سے جدا ہو کے ترے خواب میں آئے

کچھ ایسے بھی ہموار کی ہر سطح کو اپنی
موجوں کی طرح ہم ترے پایاب میں آئے

ان کو بھی ابد کے کسی ساحل پہ اتارو
وہ لمس جو اس رات کے سیلاب میں آئے

اک نقش تو ٹھہرا تھا روانی کے بدن پر
جب بن کے بھنور ہم ترے گرداب میں آئے

بکھراؤ کے شہپر پہ ہم اترے پہ زمیں پر
کچھ پھیل کے اس نقطۂ نایاب میں آئے

تھے غیب کے تیشے سے تراشے ہوئے ہم تب
انگڑائی کی صورت تری محراب میں آئے