دنیا سے، جس سے آگے کا سوچا نہیں گیا
ہم سے وہاں پہنچ کے بھی ٹھہرا نہیں گیا
آنکھوں پہ ایسا وقت بھی گزرا ہے بارہا
وہ دیکھنا پڑا ہے جو دیکھا نہیں گیا
پڑھوانا چاہتے تھے نجومی سے ہم وہی
ہم سے قدم زمین پہ رکھا نہیں گیا
نقشے میں آج ڈھونڈنے بیٹھا ہوں وہ زمیں
جس کو ہزار ٹکڑوں میں بانٹا نہیں گیا
اب کیا کہیں نجومی کے بارے میں چھوڑیئے
اپنا تو یہ برس بھی کچھ اچھا نہیں گیا
غزل
دنیا سے، جس سے آگے کا سوچا نہیں گیا
راجیش ریڈی