دنیا نے سچ کو جھوٹ کہا کچھ نہیں ہوا
اتنا لہو زمیں پہ بہا کچھ نہیں ہوا
پہلے بھی کربلا میں مشیت خموش تھی
اب اک چراغ اور بجھا کچھ نہیں ہوا
فرعون مصلحت سر طور نظر رہے
موسیٰ بھی لے کے آئے عصا کچھ نہیں ہوا
میرے لہو کو چہرے پہ مل کر مری زمیں
دیتی رہی فلک کو صدا کچھ نہیں ہوا
تثلیث بے حسی نے حرم کو زبوں کیا
قرآں بھی رحل جاں سے گرا کچھ نہیں ہوا
شل ہو گئے ہیں ہاتھ دعا مانگتے ہوئے
اب کیا کہوں کہ میرے خدا کچھ نہیں ہوا
دیکھیں وہ صبح امن کب آئے صفیؔ حسن
اب تک سوائے جور و جفا کچھ نہیں ہوا

غزل
دنیا نے سچ کو جھوٹ کہا کچھ نہیں ہوا
سید صفی حسن