EN हिंदी
دنیا نے بس تھکا ہی دیا کام کم ہوئے | شیح شیری
duniya ne bas thaka hi diya kaam kam hue

غزل

دنیا نے بس تھکا ہی دیا کام کم ہوئے

شاہین غازی پوری

;

دنیا نے بس تھکا ہی دیا کام کم ہوئے
تیری گلی میں آئے تو کچھ تازہ دم ہوئے

عقدہ کھلا تو درد کے رشتے بہم ہوئے
دامن کے ساتھ اب کے گریباں بھی نم ہوئے

جب سے اسیر سلسلۂ بیش و کم ہوئے
ہم کو صلیب اپنے ہی نقش قدم ہوئے

بدلی ذرا جو طرز خرام ستار گاں
نقطوں میں آنکھ بیچ صحیفے رقم ہوئے

تھے منتظر ہمارے بھی گل چہرگان شہر
لیکن رہا گرفت جہاں سے نہ ہم ہوئے

رہ کر جن انتہاؤں میں اپنی گزر گئی
اس طرح جینے والے تو جاں بر ہی کم ہوئے

دیوار پر گڑے ہوئے ٹکڑے پہ کانچ کے
یہ کس حصار رنگ میں محصور ہم ہوئے

چشمک یہ دھوپ چھاؤں کی اور ایک زرد پھول
اک جان ناتواں پہ ہزاروں ستم ہوئے

یکتا و بے نظیر ہے وہ کیا اسے غرض
خارج ہوئے کہ داخل کعبہ صنم ہوئے

شاہینؔ تھے کمال کے رتبہ شناس دہر
پر اپنی منزلت سے خود آگاہ کم ہوئے