EN हिंदी
دنیا میں کیا کسی سے سروکار ہے ہمیں | شیح شیری
duniya mein kya kisi se sarokar hai hamein

غزل

دنیا میں کیا کسی سے سروکار ہے ہمیں

ولی اللہ محب

;

دنیا میں کیا کسی سے سروکار ہے ہمیں
تجھ بن تو اپنی زیست ہی دشوار ہے ہمیں

تو ہی نہیں تو جان تری جان کی قسم
یہ جان کس کے واسطے درکار ہے ہمیں

گرتے ہیں دکھ سے تیری جدائی کے ورنہ خیر
چنگے بھلے ہیں کچھ نہیں آزار ہے ہمیں

مر بچ کے دن تو گزرے ہے جوں توں پر اس طرح
نظروں میں نور مہر شب تار ہے ہمیں

پھر رات کی نہ پوچھ حقیقت کہ صبح تک
آہ‌ و فغان و دیدۂ خونبار ہے ہمیں

ہو کر اداس باغ میں جاویں کبھو تو واں
نظروں کے بیچ ہر رگ گل خار ہے ہمیں

دن کا وہ حال رات کا وہ کچھ بیان ہے
سیر چمن سو دل سے کچھ اے یار ہے ہمیں

تس پر بھی ہم سے ملنے کا انکار ہے تجھے
جس میں تری رضا سوئے اقرار ہے ہمیں

شکوے بھرے ہیں دل میں ولیکن محبؔ من
کب تیرے آگے طاقت گفتار ہے ہمیں