دنیا میں کتنے رنگ نظر آئیں گے نئے
ہوں دید کے عمل میں اگر زاویے نئے
چہرہ بھی آنسوؤں سے تر و تازہ ہو گیا
بارش کے بعد سبزہ و گل بھی ہوئے نئے
بدلی ہے یہ زمیں کہ مری آنکھ وہ نہیں
بیگانہ شہر و دشت ہیں اور راستے نئے
اس کو بدل گیا نشۂ خود سپردگی
مانوس خال و خد مجھے یکسر لگے نئے
سب سے جدا ہیں گر مرے نو زائیدہ خیال
جس نے دیئے خیال وہ الفاظ دے نئے
غزل
دنیا میں کتنے رنگ نظر آئیں گے نئے
حسن اکبر کمال