دنیا میں جو سمجھتے تھے بار گراں مجھے
وہ ہی سنا رہے ہیں مری داستاں مجھے
مڑ مڑ کے دیکھتا تھا ترے نقش پا کو میں
تنہا سمجھ کے چل دیا جب کارواں مجھے
دو گام میرے ساتھ چلے راہ عشق میں
ملتا نہیں ہے ایسا کوئی راز داں مجھے
خاموشیوں سے رابطہ قائم جو کر لیا
دنیا سمجھ رہی ہے ابھی بے زباں مجھے
میں نے رئیسؔ خدمت شعر و سخن جو کی
اس واسطے عزیز ہے اردو زباں مجھے

غزل
دنیا میں جو سمجھتے تھے بار گراں مجھے
رئیس صدیقی