دنیا میں ہے یوں تو کون بے غم
پوچھے کوئی کیوں اداس ہیں ہم
کیا شہر کے باسیوں کو معلوم
کرتے ہیں غزال کس طرح رم
کرتے رہے عمر بھر وضاحت
پر رہ گئی بات پھر بھی مبہم
شکوہ تو ہے دوسروں سے لیکن
ناراض ہیں اپنے آپ سے ہم
ہر سانس کے ساتھ کر رہے ہیں
گزری ہوئی زندگی کا ماتم
اوروں کی نظر میں کیا سماتے
خود آپ کو بھی جچے نہیں ہم
راشدؔ وہ غزل کوئی غزل ہے
گائے نہ جسے فریدہؔ خانم
غزل
دنیا میں ہے یوں تو کون بے غم
راشد مفتی