EN हिंदी
دنیا میں بقا نہیں کسی کو | شیح شیری
duniya mein baqa nahin kisi ko

غزل

دنیا میں بقا نہیں کسی کو

دتا تریہ کیفی

;

دنیا میں بقا نہیں کسی کو
مرنا اک روز ہے سبھی کو

وہ کون ہے جو ہے عیب سے پاک
کیا کوئی برا کہے کسی کو

معلوم ہے وعدے کی حقیقت
بھلا لیتے ہیں اپنے جی کو

خود نور خدا ہو تم میں پیدا
دل سے کھو دو اگر خودی کو

سو عیبوں کا ایک عیب ہے یہ
افلاس خدا نہ دے کسی کو

مشکل نہیں کوئی کام لیکن
ہمت لازم ہے آدمی کو

سچ کہہ دے کہ ہے قصور کس کا
منصف میں نے کیا تجھی کو

مانا کہ شراب چھوڑی کیفیؔ
ایسا تو کہو نہ مے کشی کو