دنیا کو ولولہ دل ناشاد سے ہوا
یہ طول اس خلاصۂ ایجاد سے ہوا
فصل جنوں میں سینہ و ناخن کو میرے دیکھ
کیا بے ستوں پہ تیشہ فرہاد سے ہوا
رحمت نے بڑھ کے سرد جہنم کو کر دیا
کیسا قصور یہ دل ناشاد سے ہوا
خوش ہوں میں وقت نزع خوشا لذت فراغ
جو کچھ ہوا وہ آپ کے ارشاد سے ہوا
یہ ہے حقیقت عدم و عالم وجود
وہ خامشی سے یہ مری فریاد سے ہوا
نا واقف رسوم محبت ہے کوئی چیز
انساں عزیزؔ شیوۂ فریاد سے ہوا
غزل
دنیا کو ولولہ دل ناشاد سے ہوا
عزیز لکھنوی