EN हिंदी
دنیا کو ولولہ دل ناشاد سے ہوا | شیح شیری
duniya ko walwala dil-e-nashad se hua

غزل

دنیا کو ولولہ دل ناشاد سے ہوا

عزیز لکھنوی

;

دنیا کو ولولہ دل ناشاد سے ہوا
یہ طول اس خلاصۂ ایجاد سے ہوا

فصل جنوں میں سینہ و ناخن کو میرے دیکھ
کیا بے ستوں پہ تیشہ فرہاد سے ہوا

رحمت نے بڑھ کے سرد جہنم کو کر دیا
کیسا قصور یہ دل ناشاد سے ہوا

خوش ہوں میں وقت نزع خوشا لذت فراغ
جو کچھ ہوا وہ آپ کے ارشاد سے ہوا

یہ ہے حقیقت عدم و عالم وجود
وہ خامشی سے یہ مری فریاد سے ہوا

نا واقف رسوم محبت ہے کوئی چیز
انساں عزیزؔ شیوۂ فریاد سے ہوا