EN हिंदी
دنیا کو جب پہچانی تو کانپ گئی | شیح شیری
duniya ko jab pahchani to kanp gai

غزل

دنیا کو جب پہچانی تو کانپ گئی

جاناں ملک

;

دنیا کو جب پہچانی تو کانپ گئی
سر سے جب گزرا پانی تو کانپ گئی

پاس رہا تو قربت کا احساس نہ تھا
اس نے جانے کی ٹھانی تو کانپ گئی

گھر سے باہر جاں لیوا سناٹا تھا
دیکھی شہر کی ویرانی تو کانپ گئی

پھولوں کے ملبوس میں کیسا لگتا تھا
دیکھی پیڑ کی عریانی تو کانپ گئی

ہجر کی شب نے جاناںؔ کیا تحریر کیا
دیکھی اپنی پیشانی تو کانپ گئی