دنیا کو اس بار فسانہ کر دوں گا
خوابوں کو ہر سمت روانہ کر دوں گا
ان رستوں سے میری پرانی نسبت ہے
ساتھ چلو تو سفر سہانا کر دوں گا
آ جائے گی دنیا اصلی حالت پر
نافذ ہر دستور پرانا کر دوں گا
وہ بھی کہاں کرتا ہے کوئی وعدہ پورا
میں بھی اس سے کوئی بہانہ کر دوں گا
شاید تم کو پتہ نہیں میں چاہوں تو
اپنے حق میں پیش زمانہ کر دوں گا
غزل
دنیا کو اس بار فسانہ کر دوں گا
عبید صدیقی