EN हिंदी
دنیا کو اس بار فسانہ کر دوں گا | شیح شیری
duniya ko is bar fasana kar dunga

غزل

دنیا کو اس بار فسانہ کر دوں گا

عبید صدیقی

;

دنیا کو اس بار فسانہ کر دوں گا
خوابوں کو ہر سمت روانہ کر دوں گا

ان رستوں سے میری پرانی نسبت ہے
ساتھ چلو تو سفر سہانا کر دوں گا

آ جائے گی دنیا اصلی حالت پر
نافذ ہر دستور پرانا کر دوں گا

وہ بھی کہاں کرتا ہے کوئی وعدہ پورا
میں بھی اس سے کوئی بہانہ کر دوں گا

شاید تم کو پتہ نہیں میں چاہوں تو
اپنے حق میں پیش زمانہ کر دوں گا