دنیا کو ہر چیز دکھائی جا سکتی ہے
پتھر میں بھی آنکھ بنائی جا سکتی ہے
دل کی مٹی کی زرخیزی ایسی ہے کہ
کیسی بھی ہو چیز اگائی جا سکتی ہے
ہجر کا موسم وو موسم ہے جس میں جاناں
آنکھوں میں بھی رات بتائی جا سکتی ہے
پتھر کو ٹھوکر کی حد تک تم نہ جانو
پتھر سے تو آگ لگائی جا سکتی ہے
خود کے ہونے کا احساس دلاتا ہے وو
اس ڈر سے کے اس کی خدائی جا سکتی ہے
دل کی بازی ایسی بازی ہے جس میں ہم
ہاریں بھی تو جیت منائی جا سکتی ہے
مجھ کو سارے نقش ادھورے دکھتے ہیں اب
یعنی مجھ پہ گاج گرائی جا سکتی ہے
غزل
دنیا کو ہر چیز دکھائی جا سکتی ہے
رینو نیر