EN हिंदी
دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ کر دیا | شیح شیری
duniya ke har KHayal se begana kar diya

غزل

دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ کر دیا

فنا بلند شہری

;

دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ کر دیا
حسن خیال یار نے دیوانہ کر دیا

تو نے کمال جلوۂ جانانہ کر دیا
بلبل کو پھول شمع کو پروانہ کر دیا

مشرب نہیں یہ میرا کہ پوجوں بتوں کو میں
شوق طلب نے دل کو صنم خانہ کر دیا

ان کی نگاہ مست کے قربان جائیے
میرے جنوں کو حاصل مے خانہ کر دیا

ٹھکرائے یا قبول کرے اس کی بات ہے
ہم نے تو پیش جان کا نذرانہ کر دیا

تیرے خرام ناز پہ قربان زندگی
نقش قدم کو رونق ویرانہ کر دیا

میخانۂ الست کا وہ رند ہوں فناؔ
جس پر نگاہ ڈال دی مستانہ کر دیا