دنیا کا یہ اعزاز یہ انعام بہت ہے
مجھ پر ترے اکرام کا الزام بہت ہے
اس عمر میں یہ موڑ اچانک یہ ملاقات
خوش گام ابھی گردش ایام بہت ہے
بجھتی ہوئی صبحیں ہوں کہ جلتی ہوئی راتیں
تجھ سے یہ ملاقات سر شام بہت ہے
میں مرحمت خاص کا خواہاں بھی نہیں ہوں
میرے لیے تیری نگہ عام بہت ہے
کم یاب کیا ہے اسے بازار طلب نے
ہم تھے تو وہ ارزاں تھا پر اب دام بہت ہے
اس گھر کی بدولت مرے شعروں کو ہے شہرت
وہ گھر کہ جو اس شہر میں بد نام بہت ہے
غزل
دنیا کا یہ اعزاز یہ انعام بہت ہے
مظہر امام