دنیا کا غم ہی کیا غم الفت کے سامنے
باطل ہے بے وجود حقیقت کے سامنے
حسرت سے چپ ہوں میں تری صورت کے سامنے
جیسے گناہ گار ہو جنت کے سامنے
رسوائیاں ہزار ہوں بربادیاں ہزار
پروا کسے ہے تیری محبت کے سامنے
اے ناز عشق دار و رسن کی بساط کیا
میرے وفور شوق شہادت کے سامنے
اے حسن بے مثال مجال آئنے کی کیا
جو آ سکے کبھی تری صورت کے سامنے
آبادیوں کو چھوڑ کے خوش ہو گیا تھا میں
صحرا بھی تنگ ہے مری وحشت کے سامنے
لاکھوں حجاب حسن کو گھیرے رہیں مگر
ٹھہرے ہیں کب نگاہ محبت کے سامنے
کتنے پہاڑ راہ وفا میں کٹے ارمؔ
کتنے ابھی ہیں اور مصیبت کے سامنے

غزل
دنیا کا غم ہی کیا غم الفت کے سامنے
ارم لکھنوی