EN हिंदी
دنیا ہے یہ کسی کا نہ اس میں قصور تھا | شیح شیری
duniya hai ye kisi ka na isMein qusur tha

غزل

دنیا ہے یہ کسی کا نہ اس میں قصور تھا

آنند نرائن ملا

;

دنیا ہے یہ کسی کا نہ اس میں قصور تھا
دو دوستوں کا مل کے بچھڑنا ضرور تھا

اس کے کرم پہ شک تجھے زاہد ضرور تھا
ورنہ ترا قصور نہ کرنا قصور تھا

تم دور جب تلک تھے تو نغمہ بھی تھا فغاں
تم پاس آ گئے تو الم بھی سرور تھا

اس اک نظر کے بزم میں قصے بنے ہزار
اتنا سمجھ سکا جسے جتنا شعور تھا

اک درس تھی کسی کی یہ فن کاری نگاہ
کوئی نہ زد میں تھا نہ کوئی زد سے دور تھا

بس دیکھنے ہی میں تھیں نگاہیں کسی کی تلخ
شیریں سا اک پیام بھی بین السطور تھا

پیتے تو ہم نے شیخ کو دیکھا نہیں مگر
نکلا جو مے کدے سے تو چہرے پہ نور تھا

ملاؔ کا مسجدوں میں تو ہم نے سنا نہ نام
ذکر اس کا مے کدوں میں مگر دور دور تھا