دنیا ہے تیز دھوپ سمندر ہے جیسے تو
بس ایک سانس اور کہ منظر ہے جیسے تو
یہ اور بات ہے کہ بہت مقتدر ہوں میں
ہے دسترس میں کوئی تو پل بھر ہے جیسے تو
بس چلتے چلتے مجھ کو بدن کی روش ملی
ورنہ یہ سرد شام بھی پتھر ہے جیسے تو
کیا جانے کس صدی کا تکلف ہے درمیاں
یہ روز و شب کی دھول ہی بہتر ہے جیسے تو
غزل
دنیا ہے تیز دھوپ سمندر ہے جیسے تو
جاوید ناصر