دنیا ہے کیا چیز برابر دیکھ رہا ہوں
اپنی آنکھ سے آگے بڑھ کر دیکھ رہا ہوں
ایک سمندر آنکھ سے باہر دیکھ رہا ہوں
ایک سمندر اپنے اندر دیکھ رہا ہوں
کس حیرت سے تیرا پیکر دیکھ رہا ہوں
یوں لگتا ہے تتلی کے پر دیکھ رہا ہوں
ایسے دیکھو یہ دیکھو اور وہ نہیں دیکھو
بند کرو یہ میں بھی اکثر دیکھ رہا ہوں
غزل
دنیا ہے کیا چیز برابر دیکھ رہا ہوں
شناور اسحاق