دنیا دنیا سیر سفر تھی شوق کی راہ تمام ہوئی
اس بستی میں صبح ہوئی تھی اس بستی میں شام ہوئی
کیسی لہر ہے سرد ہوا کی سارے ٹھٹھرے بیٹھے ہیں
کل تک تو بس ہم چپ چپ تھے آج خموشی عام ہوئی
موسم بدلے دل کا سورج دکھ کی گھٹا میں ڈوب گیا
پیار کے لیل و نہار نہ پوچھو شام سے پہلے شام ہوئی
درد کی برکھا ٹوٹ کے برسی پھوٹ بہے پلکوں کے بند
اس بارش میں وضع وفا کی ہر کوشش ناکام ہوئی
ہلکی سی اک لہر تھی اب وہ طوفاں بن کر ابھری ہے
اک بے نام خلش تھی پہلے اب وہ تیرا نام ہوئی
تیرے سر پر رات کی رانی مہک مہک کر پھول بنی
میرے سر میں پھول کی خوشبو شورش کا پیغام ہوئی
چھوٹا سا وہ دل کا ٹکڑا کیا کیا فصلیں دیتا تھا
حیف قمار عشق کے کارن کیسی زمیں نیلام ہوئی
پہلے تو اک سایہ ابھرا پھر سایہ تصویر بنا
اب وہ شکل مری دیوار پہ گویا نقش دوام ہوئی
ایک عمل کے دو پہلو آواز سلاسل جذب کی چپ
وہ بھی میرے نام ہوئی تھی یہ بھی میرے نام ہوئی
اہل ہنر کی دنیا طلبی شوق شہادت کیا کرتی
اک تلوار تھی عرض ہنر کی وہ بھی زیب نیام ہوئی
باقرؔ تم سیدزادے ہو سر کو اٹھائے پھرنا کیا
شوق و طلب کی حجت آخر آخر کار تمام ہوئی
غزل
دنیا دنیا سیر سفر تھی شوق کی راہ تمام ہوئی
سجاد باقر رضوی