دنیا عجیب کھیل تماشا لگے مجھے
ہر آدمی ہجوم میں تنہا لگے مجھے
گونگے مجاہدوں کا یہ ٹھہرا ہوا جلوس
پرچھائیوں کا ایک جزیرہ لگے مجھے
بازار سنگ و خشت میں سو نازکی کے ساتھ
اپنی حیات کانچ کی گڑیا لگے مجھے
سورج مکھی کی طرح بدلتی ہے رخ حیات
جب آفتاب وقت ابھرتا لگے مجھے
اس درجہ موج خوں ہے رگوں میں شرر فشاں
عمر رواں تو آگ کا دریا لگے مجھے
پو پھوٹتے ہی دور نکل جاؤں گا سحرؔ
سنسار ایک رین بسیرا لگے مجھے

غزل
دنیا عجیب کھیل تماشا لگے مجھے
شمشاد سحر