دکھوں کی وادی میں ہر شام کا گزر ایسے
تمہاری یاد کا پھیلا ہو دھندلکا جیسے
ستم ظریف بتا کس طرح مناؤں تجھے
کہ جز ترے میں گزاروں گی زندگی کیسے
رتوں میں آیا نظر پیار کا رچاؤ مجھے
ترے وجود کو خود میں سمو لیا ایسے
بھری بہار جو گزری تو پھر گزرتی گئی
مگر ہمیں تو خبر ہی نہ ہو سکی جیسے
محبتوں کے جزیروں کے خواب باقی ہیں
وگرنہ دن کے اجالے بھی راکھ ہیں جیسے
غزل
دکھوں کی وادی میں ہر شام کا گزر ایسے
سیدہ خالدہ ضیا