EN हिंदी
دکھوں کے پھول تو ہیں زخم تو ہے داغ تو ہے | شیح شیری
dukhon ke phul to hain zaKHm to hai dagh to hai

غزل

دکھوں کے پھول تو ہیں زخم تو ہے داغ تو ہے

فراست رضوی

;

دکھوں کے پھول تو ہیں زخم تو ہے داغ تو ہے
ہرا بھرا مرے سینے میں کوئی باغ تو ہے

نہیں ہے وصل مگر خواب وصل بھی ہے بہت
ذرا سی دیر غم ہجر سے فراغ تو ہے

بہت اجاڑے سہی عمر کی سرائے مگر
شکستہ طاق میں اک یاد کا چراغ تو ہے

میں تشنگی کا گلا کیا کروں کہ صورت دل
لہو کی مے سے چھلکتا ہوا ایاغ تو ہے

تو کھو گیا ہے مرے شہر رفتگاں لیکن
یہ ایک درد کی خوشبو ترا سراغ تو ہے