دکھوں کے پھول تو ہیں زخم تو ہے داغ تو ہے
ہرا بھرا مرے سینے میں کوئی باغ تو ہے
نہیں ہے وصل مگر خواب وصل بھی ہے بہت
ذرا سی دیر غم ہجر سے فراغ تو ہے
بہت اجاڑے سہی عمر کی سرائے مگر
شکستہ طاق میں اک یاد کا چراغ تو ہے
میں تشنگی کا گلا کیا کروں کہ صورت دل
لہو کی مے سے چھلکتا ہوا ایاغ تو ہے
تو کھو گیا ہے مرے شہر رفتگاں لیکن
یہ ایک درد کی خوشبو ترا سراغ تو ہے
غزل
دکھوں کے پھول تو ہیں زخم تو ہے داغ تو ہے
فراست رضوی