EN हिंदी
دکھ ذرا کیا ملا محبت میں | شیح شیری
dukh zara kya mila mohabbat mein

غزل

دکھ ذرا کیا ملا محبت میں

شاداب الفت

;

دکھ ذرا کیا ملا محبت میں
بس جھلکنے لگا عبارت میں

کیسے کیسے سوال کرتا ہے
ایک پاگل تری حراست میں

کیوں نہیں ہو رہا اثر اس پر
کیا بلوغت نہیں بلاغت میں

لمس تیرا دوا تھا جینے کی
میں تو مارا گیا شرافت میں

ایسی عادت ہوئی اسیری کی
چین پڑتا نہیں فراغت میں

یہ جو ہذیان بک رہے ہو تم
عشق کی ہو میاں حرارت میں

میں دھویں سے لپٹ گیا بڑھ کر
جو اٹھا تھا تری شباہت میں