دکھ اٹھاؤ کتنے ہی گھر بہار کرنے میں
ایک پل نہیں لگتا پھول سب بکھرنے میں
زندگی ہو کیسی بھی اس سے جی نہیں بھرتا
ورنہ صرف ہوتا ہے کتنا وقت مرنے میں
کھڑکیاں ہوئیں خالی پھولوں اور چراغوں سے
کیسا دل تڑپتا ہے شہر سے گزرنے میں
وقت زخم بھرتا ہے اور یوں بھی ہوتا ہے
عمر بیت جاتی ہے ایک زخم بھرنے میں
سب کی بات دہرانا یوں تو رسم دنیا ہے
لطف اور ہے لیکن اپنی بات کرنے میں
جا بسی ہے وہ لڑکی شہر میں مگر اب بھی
گونجتے ہیں گیت اس کے ہر پہاڑی جھرنے میں
غزل
دکھ اٹھاؤ کتنے ہی گھر بہار کرنے میں
حسن اکبر کمال