EN हिंदी
دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں | شیح شیری
dukh nahin hai ki jal raha hun main

غزل

دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں

فیصل عجمی

;

دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں
روشنی میں بدل رہا ہوں میں

ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جانے دو
آئنے سے نکل رہا ہوں میں

رزق ملتا ہے کتنی مشکل سے
جیسے پتھر میں پل رہا ہوں میں

ہر خزانے کو مار دی ٹھوکر
اور اب ہاتھ مل رہا ہوں میں

خوف غرقاب ہو گیا فیصلؔ
اب سمندر پہ چل رہا ہوں میں