دکھ کی چیخیں پیار کی سرگوشیاں رہ جائیں گی
ہم چلے جائیں گے آوازیں یہاں رہ جائیں گی
آئنوں جیسے بدن دریا بہا لے جائے گا
ریت میں پیراہنوں کی دھجیاں رہ جائیں گی
صبح سے پہلے گزر جائے گا یہ طوفان بھی
آسماں پر اکا دکا بدلیاں رہ جائیں گی
ہو بھی جائے دل اگر خالی خیال و خواب سے
پھر بھی اک کونے میں کچھ بے خوابیاں رہ جائیں گی
غزل
دکھ کی چیخیں پیار کی سرگوشیاں رہ جائیں گی
احمد مشتاق