EN हिंदी
دکھ کی چیخیں پیار کی سرگوشیاں رہ جائیں گی | شیح شیری
dukh ki chiKHen pyar ki sargoshiyan rah jaengi

غزل

دکھ کی چیخیں پیار کی سرگوشیاں رہ جائیں گی

احمد مشتاق

;

دکھ کی چیخیں پیار کی سرگوشیاں رہ جائیں گی
ہم چلے جائیں گے آوازیں یہاں رہ جائیں گی

آئنوں جیسے بدن دریا بہا لے جائے گا
ریت میں پیراہنوں کی دھجیاں رہ جائیں گی

صبح سے پہلے گزر جائے گا یہ طوفان بھی
آسماں پر اکا دکا بدلیاں رہ جائیں گی

ہو بھی جائے دل اگر خالی خیال و خواب سے
پھر بھی اک کونے میں کچھ بے خوابیاں رہ جائیں گی