دہائی ہے تری تو لے خبر او لا مکاں والے
چمن میں رو رہے ہیں آشیاں کو آشیاں والے
بھٹک سکتے نہیں اب کارواں سے کارواں والے
نشانی ہر قدم پر دیتے جاتے ہیں نشاں والے
قیامت ہے ہمارا گھر ہمارے ہی لئے زنداں
رہیں پابند ہو کر آشیاں میں آشیاں والے
مرے صیاد کا اللہ اکبر رعب کتنا ہے
قفس میں بھی زباں کو بند رکھتے ہیں زباں والے
یہی کمزوریاں اپنی رہیں تو اے قمرؔ اک دن
مکانوں میں بھی اپنے رہ نہیں سکتے مکاں والے
غزل
دہائی ہے تری تو لے خبر او لا مکاں والے
قمر جلالوی