ڈبوئے گی بتو یہ جسم دریا بار پانی میں
بنے گی موج بھی میرے لیے زنار پانی میں
غبار دیدہ تر سے تکدر دل کا ظاہر ہے
تماشہ ہے اٹھی مٹی کی اک دیوار پانی میں
تن بے جاں میں جاں آئی ہے ابرو کے اشارہ سے
بجھی تھی چشمۂ حیواں کی یہ تلوار پانی میں
یہی رونا ہے فرقت میں تو جاں آنکھوں سے نکلے گی
ہے مرغ آبی اڑنے کے لیے تیار پانی میں
ہمیں کیا غیر کے کھیتوں پہ جو ابر کرم برسا
نہ آئی اپنی جانب تو کبھی بوچھار پانی میں
تڑپتا ہوں میں رو رو کے خیال مصحف رخ میں
کہ غسل ارتماسی کرتے ہیں دیں دار پانی میں
مرے رونے پہ وہ ہنستے ہیں تو اغیار جلتے ہیں
طلسم تازہ ہے بد گل ہوئے فی النار پانی میں
ہوئے غرق عرق جو شرم عصیاں سے وہ پاک اٹھے
ہوا کرتے ہیں پیدا گوہر شہوار پانی میں
نہ ہوگی آبروئے عارضی تو جوہر ذاتی
پئیں سونے کا پانی بھی اگر زردار پانی میں
جو تو آئینہ رکھ کر سامنے زیور پہنتا ہے
تری بالی کی مچھلی تیرتی ہے یار پانی میں
شراب ناب ہے اک قسم کا پانی ہے اے زاہد
عبث کیوں ہے تجھے اے نا سمجھ انکار پانی میں
لطیف الطبع جز راحت نہیں دیتے کبھی ایذا
نہیں ممکن کہ پیدا ہو چھری کی دھار پانی میں
بنا دیتے ہیں دم میں سیکڑوں گنبد حبابوں کے
خدا کی شان رہتے ہیں عجب معمار پانی میں
غزل
ڈبوئے گی بتو یہ جسم دریا بار پانی میں
حاتم علی مہر