دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تمہاری پہلی نظر کا جواب ہو نہ سکا
کمال نور زوال حجاب ہو نہ سکا
وہ بے نقاب کبھی بے نقاب ہو نہ سکا
دل تپیدہ ہوا بزم حسن سے واپس
نظر ٹھہر نہ سکی انتخاب ہو نہ سکا
روش بدل گئی تیور ترے نہیں بدلے
قیامت آئی مگر انقلاب ہو نہ سکا
کہاں دل اور کہاں دل کے آئینے کی ادا
غرض سوال سے بہتر جواب ہو نہ سکا
مرے سوال پہ اس نے نظر جو کی نیچی
پھر اس کا مجھ سے جواب الجواب ہو نہ سکا
جلال رعب ہے ناطقؔ جمال پر اس کے
وہ بے نقاب کبھی بے نقاب ہو نہ سکا
غزل
دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
ناطقؔ لکھنوی