دعاؤں کی ضرورت ہے دوا میں کچھ نہیں رکھا
چچی میں جان باقی ہے چچا میں کچھ نہیں رکھا
گریباں کے بٹن سر کا دوپٹہ آنکھ کا پردہ
تمہاری آرٹی فیشل حیا میں کچھ نہیں رکھا
ربر کے دستخط پتھر کے افسر موم کے کاغذ
جب اندر سے ٹٹولا نادرا میں کچھ نہیں رکھا
جو تم پرفیوم میں ڈبکی لگا کر روز آتی ہو
فضا تم سے معطر ہے ہوا میں کچھ نہیں رکھا
محلے میں انہیں کہتے ہیں سب شرالنسا بیگم
تو یہ ثابت ہوا خیرالنسا میں کچھ نہیں رکھا
مسز اقبال پانی مانگ کے پیتی ہیں شوہر سے
پھر اس کے بعد کہتی ہیں پیا میں کچھ نہیں رکھا
محبت سے جو خالی ہو وہ دل بے کار ہوتا ہے
خلا میں جائیے بیت الخلاء میں کچھ نہیں رکھا
وہ میک اپ کے سہارے بن گئی فلموں کی ہیروئن
نہ ہو ناز و ادا تو نازیہ میں کچھ نہیں رکھا
ہماری نسل کے خالی کنستر یہ بتاتے ہیں
تلو میں کچھ نہیں ہے ڈالڈا میں کچھ نہیں رکھا
تو یہ نوٹوں کی خوشبو کون سی پاکٹ سے آئی ہے
میں کیسے مان لوں بند قبا میں کچھ نہیں رکھا
غزل
دعاؤں کی ضرورت ہے دوا میں کچھ نہیں رکھا
خالد عرفان