دعاؤں کے دیے جب جل رہے تھے
مرے غم آنسوؤں میں ڈھل رہے تھے
کسی نیکی کا سایہ تھا سروں پر
جو لمحے آفتوں کے ٹل رہے تھے
ہوا احساس یہ آدھی صدی بعد
یہاں پر صرف رستے چل رہے تھے
وطن کی عظمتوں کو ڈسنے والے
وطن کی آستیں میں پل رہے تھے
بہت نزدیک تھی منزل ہماری
مگر سب راستے دلدل رہے تھے
نہیں بدلے ابھی منصف یہاں کے
وہی ہیں فیصلے جو کل رہے تھے
جہاں فیضان آبادی بہت ہے
وہاں پر بھی گھنے جنگل رہے تھے
غزل
دعاؤں کے دیے جب جل رہے تھے
فیضان عارف