دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا
بتوں کے عشق میں یاد خدا سے کچھ نہ ہوا
میں ایک کیا ہوں سبھی با وفا ہیں شاکئ جور
تم ایک کیا ہو کسی بے وفا سے کچھ نہ ہوا
بھری تو تھی مگر اپنے اثر کو لا نہ سکی
گئی تو تھی مگر آہ رسا سے کچھ نہ ہوا
وہ آرزو ہوں کہ جس آرزو کی کچھ نہ چلی
وہ مدعا ہوں کہ جس مدعا سے کچھ نہ ہوا
یہی سہی کہ خوشی سے ملے ملے تو سہی
یہی سہی کہ ہماری دعا سے کچھ نہ ہوا
وہ ایک ہم کہ جو چاہا کیا وصال کی رات
وہ ایک تم کہ تمہاری حیا سے کچھ نہ ہوا
انہیں بلا کے تصور میں ہم ملے مضطرؔ
ہوس تو ہو گئی پوری بلا سے کچھ نہ ہوا
غزل
دعا سے کچھ نہ ہوا التجا سے کچھ نہ ہوا
مضطر خیرآبادی