دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطرداں اس کا
گزیدگی کے لیے دست مہرباں اس کا
گہن کے روز وہ داغی ہوئی جبیں اس کی
شب شکست وہی جسم بے اماں اس کا
کمند غیر میں سب اسپ و گوسفند اس کے
نشیب خاک میں خفتہ ستارہ داں اس کا
تنور یخ میں ٹھٹھرتے ہیں خواب و خوں اس کے
لکھا ہے نام سر لوح رفتگاں اس کا
چنی ہوئی ہیں تہہ خشت انگلیاں اس کی
کھلا ہوا ہے پس ریگ بادباں اس کا
وہ اک چراغ ہے دیوار خستگی پہ رکا
ہوا ہو تیز تو ہر حال میں زیاں اس کا
اسی سے دھوپ ہے انبار دھند ہے روپوش
گرفت خواب سے برسر ہے کارواں اس کا
غزل
دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطرداں اس کا
افضال احمد سید