دوستوں کی عطا ہے خاموشی
اب مرا مدعا ہے خاموشی
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
درد کے شہر میں ہے گھر میرا
میرے گھر کا پتا ہے خاموشی
اس طرف میں ہوں اس طرف وہ ہیں
بیچ کا فاصلہ ہے خاموشی
بھیگتی رات کی ہتھیلی پر
مثل رنگ حنا ہے خاموشی
دوستو خود تلک پہنچنے کا
مختصر راستہ ہے خاموشی
کاش سمجھیں زبان والے بھی
بے زباں کی دعا ہے خاموشی
مرنے والے نے یہ کہا فردوسؔ
زندگی کا صلہ ہے خاموشی
غزل
دوستوں کی عطا ہے خاموشی
فردوس گیاوی