دوستوں کے ہو بہو پیکر کا اندازہ لگا
ایک پتھر کے بدن پر کانچ کا چہرہ لگا
دیکھنے والی نگاہوں میں اگر تضحیک ہے
کون کہتا تھا بھرے بازار میں میلہ لگا
خواہشوں کے پیڑ سے گرتے ہوئے پتے نہ چن
زندگی کے صحن میں امید کا پودا لگا
تیرے اندر کی خزاں مایوس کر دے گی تجھے
کھڑکیوں میں پھول رکھ دیوار پر سبزہ لگا
وقت ہر دکھ کا مسیحا ہو نہیں سکتا نویدؔ
زخم اپنے دل پہ مت احساس کا گہرا لگا

غزل
دوستوں کے ہو بہو پیکر کا اندازہ لگا
اقبال نوید