EN हिंदी
دوستوں کے درمیاں بھی ہم کو تنہا دیکھتے | شیح شیری
doston ke darmiyan bhi hum ko tanha dekhte

غزل

دوستوں کے درمیاں بھی ہم کو تنہا دیکھتے

جمیل ملک

;

دوستوں کے درمیاں بھی ہم کو تنہا دیکھتے
تم کبھی آتے سر محفل تماشا دیکھتے

آئنہ خانوں میں کیا رکھا ہے حیرت کے سوا
کوچہ و بازار میں خون مسیحا دیکھتے

موت کو بھی ہم بنا لیتے متاع زندگی
قتل یوں ہوتے کہ سب دانا و بینا دیکھتے

قیس کی مانند کیوں تصویر بن کر رہ گئے
پردۂ محمل اٹھا کر روئے لیلیٰ دیکھتے

میں تمہارے حسن کا بے ساختہ اظہار ہوں
اپنے آئینے میں میرا بھی سراپا دیکھتے

ڈھونڈنے نکلے ہیں تجھ کو ماورائے آب و گل
عمر گزری یم بہ یم صحرا بہ صحرا دیکھتے

کیا یہ کم ہے فرش سے تا عرش ہو آئے جمیلؔ
چار دن کی زندگی میں اور کیا کیا دیکھتے