دوستو کیا ہے تکلف مجھے سر دینے میں
سب سے آگے ہوں میں کچھ اپنی خبر دینے میں
پھینک دیتا ہے ادھر پھول وہ گاہے گاہے
جانے کیا دیر ہے دامن مرا بھر دینے میں
سیکڑوں گم شدہ دنیائیں دکھا دیں اس نے
آ گیا لطف اسے لقمۂ تر دینے میں
شاعری کیا ہے کہ اک عمر گنوائی ہم نے
چند الفاظ کو امکان و اثر دینے میں
بات اک آئی ہے دل میں نہ بتاؤں اس کو
عیب کیا ہے مگر اظہار ہی کر دینے میں
اسے معلوم تھا اک موج مرے سر میں ہے
وہ جھجکتا تھا مجھے حکم سفر دینے میں
میں ندی پار کروں سوچ رہا ہوں بانیؔ
موج مصروف ہے پانی کو بھنور دینے میں
غزل
دوستو کیا ہے تکلف مجھے سر دینے میں
راجیندر منچندا بانی