دوستو کے کام آنا جرم ہے
خود کو دریا دل بنانا جرم ہے
اشک ریزی کی اجازت ہے مگر
احتجاجاً مسکرانا جرم ہے
منحرف تاریکیوں کے ساز پر
کوئی روشن گیت گانا جرم ہے
جب نمائش کی چمک ہو ناگزیر
اپنی رونق بھول جانا جرم ہے
سر جھکانا اچھی عادت ہے مگر
تنگ آ کر سر اٹھانا جرم ہے
پتھروں کے باغ میں ساجد اثرؔ
کانچ کے پودے لگانا جرم ہے

غزل
دوستو کے کام آنا جرم ہے
ساجد اثر