دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے
دل کے ہاتھوں کوئی آزار نہ آنے پائے
کیجیے حسن پرستی مگر اس قید کے ساتھ
پیاری صورت پہ ذرا پیار نہ آنے پائے
خانۂ یار گھر آفت کا ہے اے رہ گیرو
جسم پر سایۂ دیوار نہ آنے پائے
اے جنوں تیرا زمانے میں رہے جب تک دور
ہوش میں عاشق سرشار نہ آنے پائے
آپ پر عقدۂ نازک کمری کھل جاتا
تا کمر گیسوئے خم دار نہ آنے پائے
چشم محبوب سے نرگس کو برابر نہ کرو
پاس بیمار کے بیمار نہ آنے پائے
بحرؔ کچھ غم نہ کرو دل کے جدا ہونے کا
اب بغل میں یہ بد اطوار نہ آنے پائے

غزل
دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے
امداد علی بحر