دوستو اب تم نہ دیکھو گے یہ دن
ختم ہیں ہم پر ستم آرائیاں
چن لیا اک ایک کانٹا راہ کا
ہو مبارک یہ برہنہ پائیاں
کو بہ کو میرے جنوں کی عظمتیں
اس کی محفل میں مری رسوائیاں
عظمت سقراط و عیسیٰ کی قسم
دار کے سائے میں ہیں دارائیاں
چارہ گر مرہم بھرے گا تو کہاں
روح تک ہیں زخم کی گہرائیاں
کیفؔ کو داغ جگر بخشے گئے
اللہ اللہ یہ کرم فرمائیاں
غزل
دوستو اب تم نہ دیکھو گے یہ دن
کیف بھوپالی