دوستی اس کی دشمنی ہی سہی
دوست تو ہو وہ مدعی ہی سہی
مستی و بحث عذر کفارہ
توبہ سے توبہ ہم نے کی ہی سہی
ہے اگر کچھ وفا تو کیا کہنے
کچھ نہیں ہے تو دل لگی ہی سہی
جی ہے یہ بن لگے نہیں رہتا
کچھ تو ہو شغل عاشقی ہی سہی
محتسب ختم کیجئے حجت
پی ہے تو خیر ہم نے پی ہی سہی
حیف خمیاز ہائے حسرت و شوق
زندگانی کشاکشی ہی سہی
جان دے کر لیا ہے نام وفا
موت بھی ہم نے مول لی ہی سہی
ملتے ہیں مدعی سے ملنے دو
کہ مری ناخوشی خوشی ہی سہی
بوسہ دینے کی چیز ہے آخر
نہ سہی ہر گھڑی کبھی ہی سہی
قتل ہوتے ہیں قتل ہوتے ہیں
عہد دل دور نادری ہی سہی
اے قلقؔ ناصحوں سے کیا تکرار
مان اک بات مان لی ہی سہی
غزل
دوستی اس کی دشمنی ہی سہی
غلام مولیٰ قلق