دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلے
کون نت اٹھ کے مری جان یہ پاپڑ بیلے
چولی مسکی ہے کھلے بند گریباں یہ پھٹا
کون سی جائے سے بن آئے میاں البیلے
میل تیرے کا کوئی ہم کو سجیلا نہ ملا
دیکھ ڈالے ہیں ہر اک شہر کے میلے ٹھیلے
ظلم کی رہتی ہے مجھ پر جو یہ لے لے دے دے
کائنات اپنی مرے پاس ہے جو کچھ لے لے
نوش فرماتے ہو باتوں میں مزے سے اکثر
دھیندس اور کدوہی اور کھیرے چچیندے کیلے
دل بھرا ہے تو کہو اور نہیں تو بسم اللہ
اور من مانتی دس لاکھ تو گالی دے لے
تیرے دھمکانے سے کوئی اظفریؔ دھمکے ہے گا
کھیل ایسے ہیں میاں ہم نے بہت سے کھیلے
غزل
دوستی میں تری بس ہم نے بہت دکھ جھیلے
مرزا اظفری