EN हिंदी
دوست یا دشمن جاں کچھ بھی تم اب بن جاؤ | شیح شیری
dost ya dushman-e-jaan kuchh bhi tum ab ban jao

غزل

دوست یا دشمن جاں کچھ بھی تم اب بن جاؤ

شفیق خلش

;

دوست یا دشمن جاں کچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مرے اک تو سبب بن جاؤ

ہو مثالوں میں نہ جو حسن عجب بن جاؤ
کس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ

آ بسو دل کی طرح گھر میں بھی اے خوش الحان
زندگی بھر کو مرا ساز طرب بن جاؤ

رشک قسمت پہ مری سارے زمانے کو رہے
ہم سفر تم جو لئے اپنے یہ چھب بن جاؤ

میں نے چاہا تھا سر صبح جوانی بھی یہی
تم ہی سانسوں کی مہک دل کی طلب بن جاؤ

کچھ تو احساس چھٹے دل سے اندھیروں کا مرے
زیست تاریک کو اک شمع شب بن جاؤ

دل میں رکھتا ہوں محبت کا خزانہ جاناں
چھوڑ کر سارا جہاں میری ہی اب بن جاؤ

ذات قربت سے ہمیشہ ہی منور چاہوں
کب کہا اس سے خلش رونق شب بن جاؤ